کینیڈا سے قادیانیوں کے پندرہ
سوالات اور ان کا جواب
سوال: ۷- ”حضرت
محمد نے مرد کے مقابلے میں عورت کی گواہی آدھی کیوں
قرار دی؟“
جواب: یہ اعتراض
بھی قادیانیوں کی دناء ت، سفاہت، جہالت اور لاعلمی
بلکہ ان کی کوڑھ مغزی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس لئے کہ مرد کے مقابلہ
میں عورت کی آدھی گواہی کا حکم، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں، بلکہ خود اللہ تعالیٰ
نے دیا ہے، دوسرے لفظوں میں یہی حکمِ الٰہی
ہے، چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
”واستشہدوا شہیدین رجالکم، فان لم یکونا
رجلین فرجل وامرأتان ممن ترضون من الشہداء ان تضل احداہما فتذکر احداہما
الاخری“ (البقرہ:۲۸۲)
ترجمہ: ”اور گواہ
کرو دو شاہد اپنے مردوں میں سے، پھر اگر نہ ہوں دو مرد تو ایک مرد اور
دوعورتیں ان لوگوں میں سے کہ جن کو تم پسند کرتے ہو گواہوں میں،
تاکہ اگر بھول جائے ایک ان میں سے تو یاد دلادے اس کو وہ دوسری۔“
بلاشبہ اللہ تعالیٰ،
مردوں اور عورتوں کے مالک و خالق ہیں اور وہ ان کی ظاہر و پوشیدہ
صلاحیتوں، عقل و شعور اور حفظ و اتقان کو خوب جانتے ہیں، جب انھوں نے
ہی عورت کی گواہی مرد کے مقابلہ میں آدھی قرار دی،
تو کسی ایسے انسان کو، جو اللہ تعالیٰ کو خالق و مالک
مانتاہو، یا کم از کم اس کی ذات کا قائل ہو، اس حکمِ الٰہی
پر اعتراض کا کوئی حق نہیں، ہاں اگر کوئی منکرِ خدا اور دہریہ
اس حکمِ الٰہی پر اعتراض کرتا تو ہم اس کا جواب دینے کے مکلف
ہوتے۔
چونکہ قادیانیوں
اور ان کے روحانی آباؤاجداد عیسائیوں کو اللہ تعالیٰ
کی ذات پر ایمان کا دعویٰ ہے، اس لئے ہم ان سے عرض کرنا
چاہیں گے کہ وہ حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کی ذات پر
اعتراض کرنے کی بجائے براہ راست اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم
پر اعتراض کریں اور زندقہ کے شیش محل سے باہر نکل کر سامنے آئیں،
تاکہ لوگوں کو بھی معلوم ہو کہ قادیانیوں کا اللہ کی ذات
اور قرآن کریم پر کتنا ایمان ہے؟ اور ان کے دعویٴ ایمان
و اسلام کی کیا حقیقت ہے؟
بلا شبہ ہم یقین
سے کہتے ہیں کہ قادیانی، زہر کا پیالہ پینا تو
گوارا کرلیں گے مگر اس حقیقت کااعتراف نہیں کرسکیں گے۔
رہی یہ
بات کہ عورت کی گواہی مرد کی نسبت آدھی کیوں قرار دی
گئی؟ اور اس کی کیاحکمت ومصلحت ہے؟ تو اس سلسلہ میں عرض
ہے کہ اس کی حکمت ومصلحت قرآن وحدیث دونوں میں مذکور ہے، چنانچہ
قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت میں صراحت و وضاحت کے ساتھ
اس کی حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاگیا:
”ان تضل احداہما فتذکر احداہما الاخریٰ“ (البقرہ:۲۸۲)
ترجمہ: ”تاکہ اگر
بھول جائے ایک ان میں سے تو یاد دلادے اس کو وہ دوسری۔“
جس سے واضح طور
پر معلوم ہوا کہ خواتین عدالتی چکروں کی متحمل نہیں ہیں،
ان کی اصلی وضع گھر گرہستی اور گھریلو ذمہ داریوں
کے نبھانے کے لئے ہے، اس لئے عین ممکن ہے کہ جب عورت عدالت اور مجمع عام میں
جائے تو گھبرا جائے اور گواہی کا پورا معاملہ یا اس کے کچھ اجزاء اُسے
بھول جائیں، اس لئے حکم ہوا کہ اس کے ساتھ دوسری خاتون بطور معاون
گواہ رکھی جائے تاکہ اگر وہ بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے۔
۲- عورتیں
عام طور پر مردوں کے مقابلہ میں کمزور ہوتی ہیں، ان کے دماغ میں
رطوبت کا مادہ زیادہ ہوتاہے، اس لئے ان سے نسیان بھی زیادہ
واقع ہوتا ہے، اور وہ بھول بھی جاتی ہیں، یہ ایک
انسانی فطرت ہے، وگرنہ بعض عورتیں بڑی ذہین بھی ہوتی
ہیں، اور بعض عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے خاص صلاحیت بخشی
ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ بعض اوقات مردوں کے مقابلہ میں زیادہ
ذہین بھی ثابت ہوتی ہیں، تاہم عام فطرت اوراکثریت
کے اعتبار سے چونکہ عورت کا مزاج ”اعصابی“ ہوتا ہے، اس لئے وہ اکثر بھول جاتی
ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دماغی کیفیت
ہی ایسی بنائی ہے، لہٰذا دوعورتوں کو ایک مرد
کے ساتھ رکھا گیا ہے۔
۳- عورتوں
کے نقصان عقل کی تائید آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کے
اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے، جو آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم نے
ایک خطبہ میں فرمایا:
”ما رأیت من ناقصات عقل و دین اغلب لذی
لب منکن، قالت: یا رسول اللّٰہ وما نقصان العقل والدین؟ قال:
اما نقصان العقل فشہادة امرأتین تعدل شہادة رجل، فہذا نقصان العقل، وتمکث
اللیالی ما تصلی و تفطر فی رمضان فہذا نقصان الدین“ (صحیح
مسلم، ص:۶، ج:۱)
ترجمہ: ”میں
نے عقل اور دین کے اعتبار سے ناقصات میں سے ایسا کوئی نہیں
دیکھا، جو تم میں سے صاحبِ عقل کی عقل کو گم کردے؟ ایک
خاتون نے عرض کیا: ہم ناقص عقل و دین کیوں ہیں؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ: عورت کے نقصانِ
عقل کی وجہ یہ ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر
ہے، اور اس کے نقصانِ دین کی وجہ یہ ہے کہ وہ (مہینہ کے)
کچھ دنوں اور راتوں میں نماز نہیں پڑھتی اور رمضان میں
روزہ نہیں رکھتی۔“
اس حدیث سے
معلوم ہوا کہ دو عورتوں کی شہادت کا ایک مرد کے برابر ہونا توحکم الٰہی
ہی ہے، البتہ اس کی حکمت آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم نے
یہ ارشاد فرمائی کہ یہ ان کے نقصانِ عقل کی بناء پر ہے، دیکھا
جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم نے یہ وجہ اپنی طرف سے
ارشاد نہیں فرمائی بلکہ دراصل یہ قرآن کریم کی آیت:
”ان تضل احداہما
فتذکر احداہما الاخری“ کی تفسیر و تشریح
ہے۔
لہٰذا جو
لوگ عورت کی گواہی کے مسئلہ پر یہ اشکال کرتے ہیں اور
کہتے ہیں کہ عورت کی گواہی مرد کے مقابلہ میں نصف کیوں
ہے؟ دیکھا جائے تو وہ لوگ حکم الٰہی کا مذاق اڑاتے ہیں۔
شاید کچھ
لوگوں کو یہ خیال ہو کہ خواتین ایسی نہیں ہوتیں،
بلکہ ان کو سب باتیں خوب یاد رہتی ہیں، تو وہ گواہی
کے معاملہ میں کیوں بھول سکتی ہیں؟ اس سلسلہ میں
عرض ہے کہ تجربہ سے ثابت ہے کہ عموماً خواتین باتونی تو ہوتی ہیں،
مگر وہ ادھر ادھر کی باتیں خوب یاد رکھتی ہیں، لیکن
اصل بات اور معاملہ کی جزئیات بھول جاتی ہیں۔
۴- حجة
الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند
نے عورت کی آدھی گواہی کے سلسلہ میں ایک عجیب
و غریب نقطہ ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
”عجب نہیں
کہ مجموعہ بنی آدم میں اوّل سے لے کر آخر تک دوتہائی عورتیں
اور ایک تہائی مرد ہوں اور حکم ازلی نے باعتبار جہت تقابل کے بھی
وہی حساب ”للذکر مثل حظ
الانثیین“ بٹھاکر ایک مرد کو دو عورتوں کے مقابل رکھا ہو۔“
(تفسیر معارف القرآن مولانا محمد ادریس کاندھلوی، ص:۴۲۵، ج:۱)
چنانچہ اگر اوّل
سے آخر تک کی مردوں اور عورتوں کی تعداد کا کسی کو استحضار نہ
بھی ہوتو دنیا بھر میں موجودہ عورتوں کی تعداد سے اس کی
تصدیق ہوسکتی ہے،اس لئے کہ آج دنیا بھر میں عورتیں
مردوں کی نسبت بہت ہی زیادہ ہیں، اور غالباً اسی
تناسب سے اللہ تعالیٰ نے دو عورتوں کی گواہی اور وراثت کو
ایک مرد کے برابر رکھا ہے۔
ان تصریحات
و تفصیلات کی روشنی میں واضح ہوجانا چاہئے کہ مرد کی
نسبت عورت کی آدھی گواہی کا معاملہ کسی مسلمان کا خانہ
زاد یا آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کا وضع فرمودہ نہیں، بلکہ اللہ
تعالیٰ کا حکم ہے، اب جس کو اس پر اعتراض کرنا ہو، وہ ذاتِ الٰہی
سے ٹکرلے اور اللہ تعالیٰ سے خود ہی نمٹے۔
سوال:۸- ”والدین
کی جائیداد سے عورت کو مرد کے مقابلے میں آدھا حصہ دینے
کا کیوں حکم دیا؟ کیا عورت مرد کے مقابلے میں کمتر ہے؟“
جواب: یہاں
بھی یہ امر پیش نظر رہنا چاہئے کہ میراث میں مرد کے
مقابلہ میں عورت کو آدھا حصہ دینے کا حکم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں، بلکہ خود اللہ تعالیٰ
نے دیا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
”للذکر مثل حظ الانثیین“ (سورئہ نساء: ۱۱)
ترجمہ: ”دو
عورتوں کا حصہ ایک مرد کے برابر ہے۔“
بہرحال قادیانیوں
کو تقسیم میراث کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اورانگریزوں کی
حمایت میں مردوزن کی مساوات کا راگ نہیں الاپنا چاہئے،
بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی حق و انصاف پر مبنی تقسیم
پر سکوت اختیار کرنا چاہئے۔ یہ تو شاید قادیانیوں
کو بھی معلوم ہوگا کہ انگریزی دورِ اقتدار میں خود اسی
متحدہ ہندوستان میں یہ قانون رائج و نافذ تھا کہ خواتین حقِ
وراثت سے محروم تھیں، اور وراثت کی جائیداد اور زمین وغیرہ
ان کے نام منتقل نہیں ہوسکتی تھی، دور کیوں جائیے!
اسی انگریزی قانون کی وجہ سے میرے حقیقی
دادا کی جائیداد سے میری پھوپھیاں تک محروم رہیں․․․․
جنہیں ہندوستان کی آزادی اور قیامِ پاکستان کے بعد ان کا
شرعی حصہ دیا جاسکا۔
کیا ہم
پوچھ سکتے ہیں کہ قادیانیوں اور ان کے سرپرست عیسائیوں
کو کبھی اس ظالمانہ قانون کے خلاف آواز اٹھانے کی بھی توفیق
ہوئی؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں! تو انہیں
اسلام کے عدل و انصاف پر مبنی قانون وراثت پر
اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟
رہی یہ
بات کہ اسلام نے خواتین کو وراثت میں مردوں کے مقابلہ میں آدھا
حصہ کیوں دیا؟ اوراس کی کیا حکمت ہے؟ اس سلسلہ میں
عرض ہے کہ:
۱- مرد،
عورتوں پر حاکم ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت
دی ہے، چنانچہ اسی فضیلت کی وجہ سے مردوں کا حصہ دوہرا
اور خواتین کا حصہ اکہرا ہے۔
۲- اسی
کے ساتھ مردوں کے دوہرے حصہ کی وجہ یہ بھی ارشاد فرمائی
گئی ہے کہ مرد، عورتوں پر خرچ کرتے ہیں، جبکہ عورتیں، مردوں پر
خرچ نہیں کرتیں، اس لئے مردوں کو دوہرا دیاگیا، چنانچہ
ارشاد الٰہی ہے:
”الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللّٰہ
بعضہم علی بعض وبما انفقوا من اموالہم․“ (النساء: ۳۴)
ترجمہ: ”مرد حاکم
ہیں عورتوں پر، اس واسطے کہ بڑائی دی اللہ نے ایک کو ایک
پر اوراس واسطے کہ خرچ کئے انھوں نے اپنے مال۔“
یعنی
مرد، عورتوں پر حاکم ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر
فضیلت دی ہے اوراس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر ان کی ضرورتوں کے
لئے مال خرچ کرتے ہیں۔
گویا مردوں
کو دوہرا حصہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ مرد کے ذمہ خرچہ نفقہ ہے اور عورت
کے ذمہ کسی قسم کا کوئی نفقہ خرچہ نہیں۔
اس اعتبار سے اگر
دیکھا جائے تو عورت کو جو کچھ ملتا ہے وہ صرف اور صرف اس کا ذاتی جیب
خرچ ہے اور اس کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے، بلکہ اگر غور کیا
جائے تو عورت کو مرد کی نسبت کہیں زیادہ ملتا ہے، اس لئے کہ
خاتون جب تک نابالغ ہو، اس کا نفقہ خرچہ باپ، دادا، چچا ، بھائی وغیرہ
یا ان میں سے کوئی نہ ہو تو بیت المال کے ذمہ ہے، جب وہ
بالغ ہوجائے اوراس کا نکاح ہوجائے، تواس کے تمام اخراجات شوہر کے ذمہ ہوجاتے ہیں،
نکاح کے موقع پر اسے جو حق مہر ملتا ہے، وہ بھی خالص اس کا جیب خرچ
ہوتا ہے، اسی طرح باپ کی وفات پر اسے اپنے بھائیوں کی
نسبت جو نصف جائیداد ملتی ہے وہ بھی اس کی ذاتی ملکیت
اور جیب خرچ ہوگی، اگر اولاد ہوجائے اور شوہر کا انتقال ہوجائے تو
شوہر کی جائیداد سے ملنے والا آٹھواں حصہ بھی اس کی ذاتی
ملکیت اور جیب خرچ ہی ہوگا، اسی طرح اگر کل کلاں بیٹے
یا بیٹی کا انتقال ہوجائے تو ان کی جائیداد میں
سے ملنے والا چھٹا حصہ بھی اس کی جیب ہی میں جائے
گا، جبکہ اسلام نے عورت کو خرچ کرنے کا کہیں بھی ذمہ دار نہیں
ٹھہرایا، اس کے مقابلہ میں مرد کی ذمہ داریوں اوراخراجات
کو دیکھا جائے تو وہ ہر جگہ خرچ ہی خرچ کرتا ہوا نظرآتا ہے، مثلاً:
نکاح کے وقت حق مہر کی ادائیگی، بیوی کا نان نفقہ،
بوڑھے والدین، چھوٹی اولاد، چھوٹے اور یتیم بہن بھائیوں،
سب کا نفقہ خرچہ اس کے ذمہ اور اس کے فرائض میں شامل ہے، اب عورت کے مقابلہ
میں مرد کی میراث کے دوہرے حصہ پر اعتراض کرنے والوں کو سوچنا
چاہئے کہ نفع میں عورت ہے یا مرد؟ عورت ومرد کی مذکورہ بالا ذمہ
داریوں کے اعتبار سے بتلایا جائے کہ کس کا بینک بیلنس
بڑھے گا؟ اور کون خرچ ہی خرچ کرتا رہے گا؟ کیا اب بھی اس تقسیم
الٰہی پر اعتراض کرنے کا کسی کو حق رہ جاتا ہے؟
سوال: ۹- ”حضرت محمد نے
خود نوشادیاں کیں اور باقی مسلمانوں کو چار پر قناعت کرنے کا
حکم دیا؟ اس میں کیا مصلحت تھی؟“
جواب: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعدد ازواج کے مسئلہ پر عموماً یورپ
کے مستشرقین اپنے تعصب، نادانی اور جہل مرکب کی وجہ سے اعتراض کیا
کرتے ہیں، بلاشبہ قادیانیوں نے بھی ان سے مرعوب ہوکر ان کی
ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ان کے اعتراض کو اپنے الفاظ میں نقل کرنے کی
ناپاک جسارت کی ہے،اگر قادیانیوں کااسلام اور پیغمبراسلام
سے ذرہ بھر عقیدت کا تعلق ہوتا تو وہ ایسی دریدہ دہنی
نہ کرتے، کیونکہ جس کو کسی سے محبت و عقیدت ہوتی ہے، اس
کے بارہ میں وہ کسی اعتراض کے سننے کا روادار نہیں ہوتا، یہی
وجہ ہے کہ جب قادیانیوں کے سامنے مرزا غلام احمد قادیانی
کے اخلاق سوز کردار پر بات کی جائے تو وہ اس کے سننے کے روادار نہیں
ہوتے اوراگر بالفرض ان کومرزا جی کی کتب سے ایسے حقائق کے حوالے
دکھائے جائیں تو وہ یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ حوالہ
چیک کرنے کے بعد بات کریں گے۔
بہرحال قادیانیوں
کے اشکال کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کے لئے چار سے زائد شادیاں اور
نکاح کیونکر جائز تھے؟ کے سلسلہ میں عرض ہے کہ:
الف: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو اپنی سطح پر رکھ کر نہیں
سوچنا چاہئے کیونکہ آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ
نے بہت سے امتیازی اوصاف و خصوصیات سے نوازا تھا، اگر آج کفار و
مستشرقین کو آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم کی شادیوں پر
اعتراض ہے، تو ان کے آباؤاجداد اور مشرکین مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت، نبوت، معراج اور غیرمعمولی
کمالات پر بھی اعتراض تھا، لہٰذا ہمارے خیال میں
آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کی شادیوں پر اعتراض
کرنے والے بھی دراصل آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی ذات، صفات
اورکمالات کے منکر ہیں، مگر براہ راست اس کا اظہار کرنے کی بجائے یورپی
مستشرقین کی زبان میں عقلی احتمالات پیش کرکے اپنی
معصومیت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔
ب: جہاں تک
آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کی چار سے زائد شادیوں
کے جواز کا تعلق ہے، اس سلسلہ میں ہمارے شیخ حضرت مولانا محمد یوسف
لدھیانوی شہید نے نہایت عمدہ جواب لکھا ہے
اور ممکنہ اشکالات کو خوبصورتی سے حل فرمایاہے، لہٰذا اس عنوان
پر اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں
حضرت شہید
ہی کا جواب نقل کردیا جائے، جو درج ذیل ہے:
”الغرض نکاح کے
معاملہ میں بھی آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی بہت سی
خصوصیات تھیں اور بیک وقت چار سے زائد بیویوں کا
جمع کرنا بھی آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی انہی خصوصیات میں
شامل ہے، جس کی تصریح خود قرآن مجید میں موجود ہے۔
حافظ سیوطی ”خصائص کبریٰ“ میں
لکھتے ہیں کہ: ”شریعت میں غلام کو صرف دو شادیوں کی
اجازت ہے اوراس کے مقابلے میں آزاد آدمی کو چار شادیوں کی
اجازت ہے، جب آزاد کو بمقابلہ غلام کے زیادہ شادیوں کی اجازت
ہے، تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کو عام افرادِ امت سے زیادہ
شادیوں کی کیوں اجازت نہ ہوتی۔“
متعدد انبیاء
کرام علیہم السلام ایسے ہوئے ہیں جن کی چار سے زیادہ
شادیاں تھیں، چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں
منقول ہے کہ ان کی سوبیویاں تھیں اور صحیح بخاری
(ص:۳۹۵، ج:۱) میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ
السلام کی سو یا ننانوے بیویاں تھیں۔ بعض روایات
میں کم و بیش تعداد بھی آئی ہے۔ فتح الباری میں
حافظ ابن حجر
نے ان روایات میں تطبیق کی ہے اور وہب بن منبہ کا قول نقل
کیاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے یہاں تین سو بیویاں
اور سات سو کنیزیں تھیں۔(فتح الباری ص:۳۶۰)
بائبل میں
اس کے برعکس یہ ذکر کیاگیا ہے کہ : سلیمان کی سات سو بیویاں
اور تین سو کنیزیں تھیں۔ (۱-سلاطین:۱۱-۳)
ظاہر ہے کہ یہ
حضرات ان تمام بیویوں کے حقوق ادا کرتے ہوں گے، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نو ازواج مطہرات کے حقوق ادا کرنا ذرا بھی
محل تعجب نہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات کے بارے میں یہ
نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کو چالیس جنتی مردوں کی
طاقت عطا کی گئی تھی اور ہرجنتی کو سو آدمیوں کی
طاقت عطا کی جائے گی ․․․ اس حساب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں چار ہزار مردوں کی طاقت تھی۔
(فتح الباری ص:۳۷۸)
جب امت کے ہر مریل
سے مریل آدمی کو چار تک شادیاں کرنے کی اجازت ہے تو
آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کے لئے، جن میں چارہزار
پہلوانوں کی طاقت و دیعت کی گئی تھی، کم از کم سولہ
ہزار شادیوں کی اجازت ہونی چاہئے تھی۔
اس مسئلہ پر ایک
دوسرے پہلو سے بھی غور کرنا چاہئے کہ ایک داعی اپنی دعوت
مردوں کے حلقہ میں بلاتکلف پھیلاسکتا ہے، لیکن خواتین کے
حلقہ میں براہ راست دعوت نہیں پھیلاسکتا، حق تعالیٰ
شانہ نے اس کا یہ انتظام فرمایا ہے کہ ہر شخص کو چار بیویاں
رکھنے کی اجازت ہے، جو جدید اصطلاح میں اس کی پرائیویٹ
سیکریٹری کا کام دے سکیں اور خواتین کے حلقہ میں
اس کی دعوت کو پھیلاسکیں․․․ جب ایک امتی
کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے یہ انتظام فرمایا
ہے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم جو قیامت تک تمام انسانیت
کے نبی اور ہادی ومرشد تھے، قیامت تک پوری انسانیت
کی سعادت جن کے قدموں سے وابستہ کردی گئی تھی، اگر اللہ
تعالیٰ نے اپنی عنایت و رحمت سے امت کی خواتین
کی اصلاح و تربیت کے لئے خصوصی انتظام فرمایا ہو تواس پر
ذرا بھی تعجب نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ حکمت و ہدایت کا یہی
تقاضا تھا۔
اسی کے
ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت و جلوت کی پوری زندگی
کتاب ہدایت تھی، آپ کی جلوت کے افعال و اقوال کونقل کرنے والے
توہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین موجود تھے، لیکن آپ کی
خلوت و تنہائی کے حالات امہات المومنین کے سوا اور کون نقل کرسکتا
تھا؟ حق تعالیٰ شانہ نے آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی
زندگی کے ان خفی اورپوشیدہ گوشوں کو نقل کرنے کے لئے متعدد
ازواج مطہرات کا انتظام فرمادیا، جن کی بدولت سیرت طیبہ
کے خفی سے خفی گوشے بھی امت کے سامنے آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت و جلوت کی پوری زندگی
ایک کھلی کتاب بن گئی، جس کو ہر شخص ہروقت ملاحظہ کرسکتا ہے۔
اگر غور کیا
جائے توکثرتِ ازواج اس لحاظ سے بھی معجزئہ نبوت ہے کہ مختلف مزاج اور مختلف
قبائل کی متعدد خواتین آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی نجی
سے نجی زندگی کا شب و روز مشاہدہ کرتی ہیں اور وہ بیک
زبان آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے تقدس و طہارت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خشیت و تقویٰ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلوص و للہیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ اخلاق و اعمال کی
شہادت دیتی ہیں، اگر خدانخواستہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نجی زندگی میں کوئی
معمولی سا جھول اور کوئی ذرا سی بھی کجی ہوتی
تو اتنی کثیر تعداد ازواج مطہرات کی موجودگی میں وہ
کبھی بھی مخفی نہیں رہ سکتی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نجی زندگی کی پاکیزگی
کی یہ ایسی شہادت ہے جو بجائے خود دلیل صداقت اور
معجزئہ نبوت ہے․․․ یہاں بطور نمونہ ام المومنین
حضرت عائشہ صدیقہ
کا ایک فقرہ نقل کرتا ہوں، جس سے نجی زندگی میں
آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کے تقدس و طہارت اور پاکیزگی
کا کچھ اندازہ ہوسکے گا، وہ فرماتی ہیں:
”میں نے
کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کا ستر نہیں دیکھا اور
نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم نے کبھی میرا ستر دیکھا۔“
کیا دنیا
میں کوئی بیوی اپنے شوہر کے بارے میں یہ
شہادت دے سکتی ہے کہ مدة العمر انھوں نے ایک دوسرے کا ستر نہیں
دیکھا اور کیا اس اعلیٰ ترین اخلاق اور شرم و حیا
کا نبی کی ذات کے سوا کوئی نمونہ مل سکتا ہے؟
غور کیجئے!
کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کی نجی زندگی کے
ان ”خفی محاسن“ کو ازواج مطہرات کے سوا کون نقل کرسکتا ہے؟“ (آپ کے
مسائل اوران کا حل، ص:۲۷۶، ج:۹)
سوال: ۱۰- ”شریعت
محمدی میں مرد اگر تین بار طلاق کا لفظ ادا کرکے ازدواجی
بندھن سے فوری آزادی حاصل کرسکتا ہے تو اسی طرح عورت کیوں
نہیں کرسکتی؟“
جواب: مرد اور عورت کو
اللہ تعالیٰ نے مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے، چنانچہ جسمانی
ساخت سے لے کر ذہنی اور فکری استعداد تک وہ ایک دوسرے سے مختلف
ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے جسمانی و نفسیاتی
پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کو اسی
حساب سے تقسیم فرمایا ہے، مثلاً خواتین جسمانی اعتبار سے
کمزور اور نرم و نازک ہوتی ہیں، جبکہ مرد، ان کے مقابلہ میں سخت
جان اور محنت کش ہوتے ہیں، اس لئے شریعت مطہرہ اور اسلام نے خواتین
کو بہت سی پُرمشقت ذمہ داریوں سے آزاد رکھا ہے، مثلاً: خواتین
پر جمعہ نہیں، جماعت نہیں، جہاد نہیں، امامت نہیں، قیادت
و سیادت نہیں، اور کسب معاش نہیں، اسی فطری
اورجسمانی ساخت کے اعتبار سے خواتین کو ماہواری آتی ہے،
ان کو حمل ٹھہرتا ہے، وہ بچے جنتی ہیں، بچوں کو دودھ پلاتی ہیں،
ان کی طبیعت میں مرد کی نسبت زیادہ متاثر ہونے کی
استعداد و صلاحیت ہے، ان میں برداشت کا مادہ کم ہوتا ہے، ان کو غصہ
بہت جلدی آتا ہے اور وہ اپنی فطری ضرورت کی تکمیل کی
خاطر ماں باپ کا گھر چھوڑ کر اپنے شریک حیات کے ساتھ خوش و خرم زندگی
گزارتی ہیں، وغیرہ۔ اس لئے مرد کو، قوام وحاکم اور عورت
کو اس کے ماتحت اور دست نگر کا درجہ دیاگیا۔
اسلام نے ان کی
انہیں فطری صلاحیتوں کے باعث ان پر کم سے کم بوجھ ڈالا ہے،
چنانچہ اسلام نے خواتین کو کسب معاش کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا،
بلکہ اسے گھر کی ملکہ بنایا، گھر کی چاردیواری کے
معاملات اس کے سپرد فرمائے اور گھر کی چار دیواری کے باہر تمام
امور مرد کے ذمہ قرار دئیے، کسب معاش مرد کی ذمہ داری ہے، خاتون
کے نان، نفقہ ، لباس، پوشاک، علاج معالجہ اور سکونت و رہائش کا انتظام بھی
مرد کے ذمہ قرار دیا، اور ان دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق و ذمہ داریوں
کی طرف متوجہ فرماکر فرمایا: ”ولہن مثل الذی علیہن
بالمعروف وللرجال علیہن درجة“ (البقرہ: ۲۲۸) یعنی
ان خواتین کے حقوق بھی اسی طرح ہیں، جس طرح ان پر مردوں
کے حقوق ہیں، معروف طریقہ کے ساتھ، اور مردوں کو عورتوں پر ایک
درجہ کی فضیلت حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ
نے مرد کو ہنگامہٴ دنیا و بازار، تجارت، معاش، قیادت و سیادت
اورحکومت و امامت کا ذمہ دار بنایا تو خواتین کو گھر میں رہتے
ہوئے انسانیت سازی کا کارخانہ حوالہ کیا، اور فرمایاگیا:
”اذا صلت خمسہا و صامت شہرہا واحصنت فرجہا واطاعت بعلہا
فلتدخل من ایّ ابواب الجنة شاء ت․“ (مشکوٰة: ۲۸۱)
یعنی
عورت گھر میں رہ کر اپنے اللہ، رسول کے حقوق بجالائے، پانچ وقت کی
نماز پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے
شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل
ہوجائے۔
مگریورپ کے
مستشرقین کو عورت کا یہ اعزاز، عزت و عظمت اور سکون و اطمینان
برداشت نہیں، انھوں نے عورت کے حقوق کی پاسداری اور علمبرداری
کی آڑ میں اس کو گھر سے نکال کر ہنگامہٴ بازار میں لاکھڑا
کیا، انھوں نے اس بے چاری سے اپنی فطری خواہشات تو پوری
کیں، مگر اس کے نان نفقہ کی ذمہ داری سے جان چھڑانے کے لئے اسے
بھی بازار و کارخانہ کی راہ دکھائی۔
چنانچہ انھوں نے
اپنے انہی مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر عورت کو یہ
راہ سجھائی کہ جس طرح ہمارا دل بھرجاتا ہے اور ہم عورت کو ٹھوکر مارکر گھر
سے نکال دیتے ہیں، اسی طرح اگر عورت کا دل بھرجائے تو وہ بھی
اپنی مرضی سے کسی دوسرے مرد کی راہ دیکھے، دیکھا
جائے تو اس ”خیرخواہی“ کے پیچھے بھی عورت دشمنی کا یہ
راز ہے کہ کل کلاں عورت کے اس دھتکارے جانے پر ہمیں کوئی مورد الزام
نہ ٹھہرائے اور ہم نت نئی خاتون کو اپنی خواہش اورہوس کا نشانہ بناتے
پھریں، اس سے اپنی جنسی ضرورت پوری کریں اور اسے
چلتا کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج یورپ و امریکہ
میں زنا کو نکاح پر ترجیح دی جاتی ہے، کیونکہ نکاح
کرنے کی صورت میں عورت، مرد کی جائیداد کی حق دار
ہوجاتی ہے، جبکہ زناکاری کی غرض سے ایک ساتھ رہنے میں
مرد پر عورت کے کوئی حقوق نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ اس کی
جائیداد میں حصہ دار ہوتی ہے، لہٰذا مرد جب چاہے اس کو
دھکا دے کر فارغ کرسکتا ہے۔ کیا کبھی عورت کے حقوق کی
دہائی دینے والوں نے عورت کے اس بدترین استحصال کے خلاف بھی
آواز اٹھائی؟
جبکہ اسلام نے میاں
بیوی کے نکاح کے بندھن کو زندگی بھر کا بندھن قرار دیا
ہے، پھر چونکہ اندیشہ تھا کہ عورت اپنی فطری کمزوری، جلد
بازی سے اس بندھن کو توڑ کر در،در کی ٹھوکریں نہ کھائے، اس لئے
فرمایا کہ اس معاہدئہ نکاح کے فسخ کا حق مرد کے پاس ہی رہنا چاہئے،
چنانچہ اس عقد کو باقی رکھنے کے لئے خصوصی ہدایات دی گئیں
اور فرمایاگیا کہ اگر خدانخواستہ خواتین کی جانب سے ایسی
کسی کمی کوتاہی کا مرحلہ درپیش ہوتو مردوں کو اس عقد کے
توڑنے میں جلدبازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے؛ بلکہ دونوں جانب
کے بڑے بوڑھوں اور جانبین کے اکابر و بزرگوں کو بیچ میں ڈال کر
اصلاح کی فکر کرنی چاہئے، چنانچہ فرمایاگیا:
”والتی تخافون نشوزہن فعظوہن واہجروہن فی
المضاجع واضربوہن فان اطعنکم فلا تبغوا علیہن سبیلا، ان اللّٰہ
کان علیًا کبیرًا، وان خفتم شقاق بینہما فابعثوا حکمًا من اہلہ
وحکما من اہلہا ان یریدا اصلاحاً یوفق اللہ بینہما، ان
اللّٰہ کان علیماً خبیرا․“ (النساء:۳۵)
ترجمہ: ”اورجن کی
بدخوئی کا ڈر ہو تم کو، تو ان کو سمجھاؤ اورجدا کرو سونے میں اور مارو
پھر اگر کہا مانیں تمہارا تو مت تلاش کرو ان پر راہ الزام کی، بے شک
اللہ ہے سب سے اوپر بڑا، اوراگر تم ڈرو کہ وہ دونوں آپس میں ضد رکھتے ہیں،
تو کھڑا کرو ایک منصف مرد والوں میں سے اورایک منصف عورت والوں
میں سے، اگر یہ دونوں چاہیں گے کہ صلح کرادیں تو اللہ
موافقت کردے گا ان دونوں میں، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔“
ہاں اگرایسی
صورت پیداہوجائے کہ عورت کا اس مرد کے ساتھ گزارا نہ ہوسکے یا شوہر
ظلم و تشدد پر اتر آئے تو ایسی صورت میں عورت کو بھی حق
حاصل ہے کہ وہ اسلامی عدالت یا اپنے خاندان کے بزرگوں کے ذریعہ
اس ظالم سے گلوخلاصی کراسکتی ہے۔
اس ساری
صورت حال کا جائزہ لیا جائے تواندازہ ہوگا کہ اس میں عورت کی
عزت، عصمت اور عظمت کے تحفظ کو یقینی بنانا مقصود ہے، کیونکہ
نکاح کے بعد مرد کا تو کچھ نہیں جاتا، البتہ عورت کے لئے کئی قسم کی
مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں، مثلاً: خود اس کا اپنا بے سہارا
ہوجانا، اس کے بچوں کی پرورش، تعلیم، تربیت، ان کے مستقبل اوراس
کے خاندان کی عزت و ناموس کا معاملہ وغیرہ، ایسے بے شمار مسائل،
اس بندھن کے ٹوٹنے سے کھڑے ہوسکتے ہیں، اور ان تمام مسائل سے براہِ راست
عورت ہی دوچار ہوتی ہے، اس لئے فرمایاگیا کہ عورت کو اس
بندھن کے توڑنے کا اختیار نہ دیا جائے، تاکہ وہ ان مشکلات سے بچ جائے۔
بتلایا جائے کہ یہ عورت کی خیرخواہی ہے یا
بدخواہی؟
مگر ناس ہو یورپ
اور مستشرقین کی اندھی تقلید کا! کہ اس نے اپنے ذہنی
غلاموں کو ایسا متاثر کیا کہ وہ ہر چیز کو ان کی عینک
سے دیکھتے ہیں اور اسی زاویہٴ نگاہ سے اسلامی
احکام پر نقد و تنقید کے نشتر چلاتے ہیں۔
بلاشبہ مرزائیوں
کا یہ اعتراض بھی میرے خیال میں اپنے آقاؤں کی
اندھی تقلید کانتیجہ ہے، ورنہ شاید وہ بھی اپنی
خواتین کو حق طلاق دینے کے روادار نہیں ہوں گے، اگر ایسا
ہوتاتو ان کی عورتیں کب کی ان پر دو حرف بھیج کر جاچکی
ہوتیں۔
آحر میں ہم
خواتین کے حق طلاق کا مطالبہ کرنے والوں سے یہ بھی پوچھنا چاہیں
گے کہ اگر آپ ہی کی طرح کا کوئی عقل مند کل کلاں یہ
اعتراض کربیٹھے کہ:
۱- اللہ میاں نے مردوں کی داڑھی
بنائی ہے تو عورتوں کو اس سے کیوں محروم رکھا؟
۲- عورت اور مرد کے جنسی اعضا مختلف کیوں
ہیں؟
۳- ہر دفعہ خواتین ہی بچے کیوں
جنتی ہیں؟ مردوں کو اس سے مستثنیٰ کیوں رکھا گیا؟
۴- بچوں کو دودھ پلانے کی ذمہ داری عورت
پر کیوں رکھی گئی؟
۵- عورت ہی کو حیض و نفاس کیوں
آتا ہے؟
۶- حمل اور وضع حمل کی تکلیف مردوں
کو کیوں نہیں دی گئی؟
تو بتلایا
جائے کہ آپ ان سوالوں کا کیا جواب دیں گے؟ یہی ناں کہ یہ
مردوں اور خواتین کی جسمانی ساخت اور فطری استعداد کا نتیجہ
ہے اوراللہ تعالیٰ نے جس کو جیسی صلاحیتیں
عطا فرمائی ہیں، اسی کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ فرمایا
ہے۔
بالکل اسی
طرح خواتین کے حقِ طلاق کے مطالبہ کا بھی یہی جواب ہے کہ
جس ذات نے عورت اورمرد کو پیدا فرمایاہے، اس نے ان کی صلاحیتوں
اور جسمانی ساخت کے پیش نظر ہر ایک کے فرائض بھی تقسیم
فرمائے ہیں، اس لئے اگر مردوں کے بچے نہ جننے، حمل ، وضع حمل، رضاعت اور ان
کو حیض ونفاس نہ آنے پر قادیانیوں اور ان کے روحانی
آباؤاجداد یورپی مستشرقین کو کوئی اعتراض نہیں، تو
مردوں کے حقِ طلاق پر انہیں کیونکر اعتراض ہے؟
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ6، جلد: 91 ، جمادی الاولی
1428 ہجری مطابق جون2007ء